آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے
اور ہم اس کو بجھائیں تو بجھائے نہ بنے
رنگ رخ اڑنے پہ آج جائے تو روکے نہ رکے
لاکھ وہ راز چھپائیں تو چھپائے نہ بنے
کیا مزہ ہو نہ رہے یاد جو انداز جفا
میں کہوں بھی کہ ستاؤ تو ستائے نہ بنے
خود وفا ہے مری شاہد کہ وفادار ہوں میں
لاکھ تم دل سے بھلاؤ تو بھلائے نہ بنے
دل کے ہر ذرہ میں ہے سوز محبت کی نمود
خاک میں ان کو ملاؤں تو ملائے نہ بنے
راہ الفت نے کچھ ایسی مری صورت بدلی
دامن دشت چھپائے تو چھپائے نہ بنے
دل کو اب تاب تلافی و مداوا ابھی نہیں
چارہ گر آئے تو احسان اٹھائے نہ بنے
کوئی خاکہ مری تصویر کا کھینچے تو سہی
کھنچ بھی جائے کوئی نقشہ تو مٹائے نہ بنے
موت قابو کی نہیں اور نہ ٹھکانا اس کا
کوئی وقت اس پہ بھی آئے کہ بنائے نہ بنے
ایسے ڈھب سے ہو گلا ان کی ستم کا اے شوقؔ
بات کچھ چاہیں بنانی تو بنائے نہ بنے

غزل
آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے
پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق