آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
اے تری شان کہ پانی بھی ہے انگاروں میں
دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام نہ لو
تم جو اٹھے تو بٹھا دوں گا عزاداروں میں
جا کے اب نار جہنم کی خبر لے زاہد
ندیاں بہہ گئیں اشکوں کی گنہ گاروں میں
نوبتیں نالۂ رخصت کا پتا دیتی ہیں
ماتم عشق کی آواز ہے نقاروں میں
مجھ کو اس درد کی تھوڑی سی کسک ہے درکار
جو دوا بن کے بٹا ہے ترے بیماروں میں
بے طلب اس نے دکھایا رخ روشن مضطرؔ
نام موسیٰ کا نہیں اس کے طلب گاروں میں
غزل
آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
مضطر خیرآبادی