EN हिंदी
آستیں میں سانپ اک پلتا رہا | شیح شیری
aastin mein sanp ek palta raha

غزل

آستیں میں سانپ اک پلتا رہا

باقی صدیقی

;

آستیں میں سانپ اک پلتا رہا
ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا

آپ تو اک بات کہہ کر چل دیے
رات بھر بستر مرا جلتا رہا

ایک غم سے کتنے غم پیدا ہوئے
دل ہمارا پھولتا پھلتا رہا

زندگی کی آس بھی کیا آس ہے
موج دریا پر دیا جلتا رہا

اک نظر تنکا بنی کچھ اس طرح
دیر تک آنکھیں کوئی ملتا رہا

یہ نشاں کیسے ہیں باقیؔ دیکھنا
کون دل کی راکھ پر چلتا رہا