آسماں سورج ستارے بحر و بر کس کے لیے
یہ سفر کس کے لئے رخت سفر کس کے لئے
وہ ہرے دن وہ بھرے موسم تو کب کے جا چکے
ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں اب شجر کس کے لئے
دن نکلتے ہی نکل آئے تھے کس کی کھوج میں
شام ڈھلتے ہی چلے آئے ہیں گھر کس کے لیے
تو کسی کا منتظر کب تھا مگر یہ تو بتا
عمر بھر دل کا کھلا رکھا ہے در کس کے لئے
کون دریاؤں کی ہیبت اوڑھ کر نکلا نجیبؔ
چیخ اٹھے ہیں سمندر میں بھنور کس کے لئے

غزل
آسماں سورج ستارے بحر و بر کس کے لیے
نجیب احمد