آسماں کا رنگ میری ذات میں گھل جائے گا
دیکھنا اک دن غبار جسم بھی دھل جائے گا
ایک اک کر کے پرندے اڑ رہے ہیں شاخ سے
ایسا لگتا ہے کہ جیسے موسم گل جائے گا
خوف کی دیوی کو آخر مل گیا اس کا پتہ
اس کے شعروں سے بھی اب رنگ تغزل جائے گا
درد کے جھونکوں سے بچنا اب کہاں ممکن شمیمؔ
بند ہوگا ایک در تو دوسرا کھل جائے گا

غزل
آسماں کا رنگ میری ذات میں گھل جائے گا
شمیم فاروقی