EN हिंदी
آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے | شیح شیری
aashob-e-husn ki bhi koi dastan rahe

غزل

آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے

اصغر گونڈوی

;

آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے
مٹنے کو یوں مٹیں کہ ابد تک نشاں رہے

طوف حرم میں یا سر کوئے بتاں رہے
اک برق اضطراب رہے ہم جہاں رہے

ان کی تجلیوں کا بھی کوئی نشاں رہے
ہر ذرہ میری خاک کا آتش بجاں رہے

کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں
ہم التفات خاص سے بھی بدگماں رہے

میرے سرشک خوں میں ہے رنگینئ حیات
یا رب فضائے حسن ابد تک جواں رہے

میں رازدار حسن ہوں تم رازدار عشق
لیکن یہ امتیاز بھی کیوں درمیاں رہے