عاشقوں کے سیر کرنے کا جہاں ہی اور ہے
ان کے عالم کا زمین و آسماں ہی اور ہے
پوچھتا پھرتا ہے کیا ہر ایک سے ان کا سراغ
لا مکاں ہیں ان کو رہنے کا مکاں ہی اور ہے
آزمائش ان کی وضعوں کا تجھے ہے گا ضرر
یہ وہ فرقہ ہے کہ ان کا امتحاں ہی اور ہے
کیا خریدے گا خراب آباد کے بازار میں
درد کی ہو جنس جس میں وہ دکاں ہی اور ہے
سنگ و گل کا طوف ہو تجھ کو مبارک حاجیو
حضرت دل کے حرم کا کارواں ہی اور ہے
بیٹھنے کو شاخ طوبیٰ پر نہیں کرتیں نگاہ
اس چمن کی بلبلوں کا آشیاں ہی اور ہے
اس کو کیا نسبت کسی افسانۂ و قصے کے ساتھ
عشق کے دفتر کی حاتمؔ داستاں ہی اور ہے
غزل
عاشقوں کے سیر کرنے کا جہاں ہی اور ہے
شیخ ظہور الدین حاتم