EN हिंदी
آساں نہیں ہے جادۂ حیرت عبورنا | شیح شیری
aasan nahin hai jada-e-hairat uburna

غزل

آساں نہیں ہے جادۂ حیرت عبورنا

افتخار فلک کاظمی

;

آساں نہیں ہے جادۂ حیرت عبورنا
حیراں ہوئے بغیر اسے مت عبورنا

میرے خلاف کوئی بھی بکتا رہے مگر
سیکھا ہے میں نے سرحد تہمت عبورنا

صد آفریں خیال تو اچھا ہے واقعی
آنکھوں کو بند کر کے محبت عبورنا

آوارگان عشق ذرا احتیاط سے
لذت کے بعد لذت شہوت عبورنا

تعمیر ماہ و سال میں تاخیر کے بغیر
کس کو روا ہے عرصۂ مہلت عبورنا

جزو بدن بنے گا تو باہر بھی آئے گا
یہ زخم تھوڑی دیر سے حضرت عبورنا