EN हिंदी
آرزو کو دل ہی دل میں گھٹ کے رہنا آ گیا | شیح شیری
aarzu ko dil hi dil mein ghuT ke rahna aa gaya

غزل

آرزو کو دل ہی دل میں گھٹ کے رہنا آ گیا

آنند نرائن ملا

;

آرزو کو دل ہی دل میں گھٹ کے رہنا آ گیا
اور وہ یہ سمجھے کہ مجھ کو رنج سہنا آ گیا

پونچھتا کوئی نہیں اب مجھ سے میرا حال دل
شاید اپنا حال دل اب مجھ کو کہنا آ گیا

سب کی سنتا جا رہا ہوں اور کچھ کہتا نہیں
وہ زباں ہوں اب جسے دانتوں میں رہنا آ گیا

زندگی سے کیا لڑیں جب کوئی بھی اپنا نہیں
ہو کے شل دھارے کے رخ پر ہم کو بہنا آ گیا

لاکھ پردے اضطراب شوق پر ڈالے مگر
پھر وہ اک مچلا ہوا آنسو برہنا آ گیا

تجھ کو اپنا ہی لیا آخر نگار عشق نے
اے عروس چشم لے موتی کا گہنا آ گیا

پی کے آنسو سی کے لب بیٹھا ہوں یوں اس بزم میں
در حقیقت جیسے مجھ کو رنج سہنا آ گیا

ایک نا شکرے چمن کو رنگ و بو دیتا رہا
آ گیا ہاں آ گیا کانٹوں میں رہنا آ گیا

لب پہ نغمہ اور رخ پر اک تبسم کی نقاب
اپنے دل کا درد اب ملاؔ کو کہنا آ گیا