آرزو حسرت ناکام سے آگے نہ بڑھی
فکر اندیشۂ انجام سے آگے نہ بڑھی
سوئے منزل کبھی دو گام سے آگے نہ بڑھی
زندگی موت کے الزام سے آگے نہ بڑھی
زلف و رخ کے سحر و شام سے آگے نہ بڑھی
عاشقی رہ گزر عام سے آگے نہ بڑھی
رہ گئی رفعت پرواز کی حسرت دل میں
پرفشانی قفس و دام سے آگے نہ بڑھی
منزل بے خودیٔ شوق کی عظمت معلوم
تشنہ کاموں کی نظر جام سے آگے نہ بڑھی
کتنی شامیں گئیں اور کتنے سویرے آئے
نگہ منتظر اک شام سے آگے نہ بڑھی
پاکیٔ نفس کی عظمت کا تو کیا ذکر فگارؔ
زہد کی بات بھی احرام سے آگے نہ بڑھی
غزل
آرزو حسرت ناکام سے آگے نہ بڑھی
فگار اناوی