آرزو ہے میں رکھوں تیرے قدم پر گر جبیں
تو اٹھاوے ناز سے ظالم لگا ٹھوکر جبیں
اپنے گھر میں تو بہت پٹکا پہ کچھ حاصل نہیں
اب کے جی میں ہے تری چوکھٹ پہ روؤں دھر جبیں
جیسی پیشانی تری ہے اے مرے خورشید رو
چاند کی ہے روشنی میں اس سے کب بہتر جبیں
شیخ آ جلوہ خدا کا میکدے میں ہے مرے
کیوں رگڑتا ہے عبث کعبہ کے تو در پر جبیں
کیا کروں تیرے قدم تک تو نہیں ہے دسترس
نقش پا ہی پر ترے ملتا ہوں میں اکثر جبیں
شیخ گر شیطان سے صورت نہیں ملتی تری
بس بتا داغی ہوئی ہے کس طرح یکسر جبیں
ہے کسی کی بھی تری سے اوندھی پیشانی بھلا
دیکھ تو اے شوخ اپنی آئنہ لے کر جبیں
آ کے جن ہاتھوں سے ملتا تھا ترے تلووں کے تئیں
پیٹتا ہوں اب انہیں ہاتھوں سے میں اکثر جبیں
بوجھ کر نقش قدم کو تیرے محراب دعا
مانگتا ہوں میں مراد دل کو رکھ اس پر جبیں
چاند کا مکھڑا ہے یا آئینہ یا مصحف کا لوح
یا تری ہے اے مرے رشک مہ و اختر جبیں
صاف دل تاباںؔ مکدر ہی کبھو ہوتا نہیں
آئینہ کی ہے گی روشن دیکھ لے یکسر جبیں
غزل
آرزو ہے میں رکھوں تیرے قدم پر گر جبیں
تاباں عبد الحی