آرزوئے دل کا یہ انجام ہونا چاہیے
کیا مجھے بھی عشق میں ناکام ہونا چاہیے
کیوں بھلا ابلیس کو الزام دیتے ہو فقط
تم کو خیر و شر کا بھی الہام ہونا چاہیے
باپ کی دستار بیچیں بہن کی کھینچیں ردا
مرد کی غیرت پہ اب نیلام ہونا چاہیے
مطلبی دنیا میں ہے گم ابن آدم اس قدر
کام ہونا چاہیے بس کام ہونا چاہیے
ڈھونڈنے سے گر نہیں ملتا خدا پھر ڈھونڈیئے
صبح اس کی جستجو میں شام ہونا چاہیے
گر نصیبوں میں نہیں وہ شخص لکھا اے خدا
کچھ دعاؤں کا مری انعام ہونا چاہیے
عشق کی معراج ہو اے کاش ایسا معجزہ
نام کوئی لے وہ میرا نام ہونا چاہیے
گر تجھے بننا ہے تشنہؔ شاعرہ اک بے بدل
تیرے ہر اک شعر میں ابہام ہونا چاہیے
غزل
آرزوئے دل کا یہ انجام ہونا چاہیے
حمیرا گل تشنہ