آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص
آسودہ زیر خاک نہیں آشنائے حرص
ممکن نہیں ہے یہ کہ بھرے کاسۂ طمع
دن میں کروڑ گھر جو پھرا دے گدائے حرص
انساں نہ ہوں ذلیل زمانے کے ہاتھ سے
ذلت کسی کو کوئی نہ دیوے سوائے حرص
کر منہ کو ٹک بسوے قناعت یہ حرف مان
رہتی ہے لاکھ طرح کی آفت قفائے حرص
ناداں تلاش طرۂ زر سے تو باز آ
جوں شمع یہ نہ ہو کہ ترا سر کٹائے حرص
اپنے سوا کسی کو نہ پایا حریف حیف
کی قطع روزگار نے ہم پر قبائے حرص
سوداؔ بسر ہو خوبی سے اوقات ہر طرح
پر درمیاں نہ ہووے بشرطیکہ پائے حرص
غزل
آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص
محمد رفیع سودا