آپ لوگوں کے کہے پر ہی اکھڑ جاتے ہیں
لوگ تو جھوٹ بھی سو طرح کے گھڑ جاتے ہیں
آنکھ کس طرح کھلے میری کہ میں جانتا ہوں
آنکھ کھلتے ہی سبھی خواب اجڑ جاتے ہیں
غم تمہارا نہیں جاناں ہمیں دکھ اپنا ہے
تم بچھڑتے ہو تو ہم خود سے بچھڑ جاتے ہیں
لوگ کہتے ہیں کہ تقدیر اٹل ہوتی ہے
ہم نے دیکھا ہے مقدر بھی بگڑ جاتے ہیں
وہ جو حیدرؔ مرے منکر تھے مرے ذکر پہ اب
چونک اٹھتے ہیں کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں
غزل
آپ لوگوں کے کہے پر ہی اکھڑ جاتے ہیں
حیدر قریشی