آپ کی بس یہ نشانی رہ گئی
الجھنوں میں زندگانی رہ گئی
جھوٹ آیا سامنے سچ کی طرح
دور روتی حق بیانی رہ گئی
جس کے دو کردار تھے تم اور میں
یاد مجھ کو وہ کہانی رہ گئی
جس کا کہہ دینا ضروری تھا بہت
بات وہ تم کو بتانی رہ گئی
خاک میں لپٹا ہوا بچپن گیا
کرب میں لپٹی جوانی رہ گئی
عمر گزری ہے غلاموں کی طرح
نام کی وہ صرف رانی رہ گئی

غزل
آپ کی بس یہ نشانی رہ گئی
سیا سچدیو