آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہوگی
میری سرکار بڑی سخت خرابی ہوگی
محتسب نے ہی پڑھا ہوگا مقالہ پہلے
مری تقریر بہ ہر حال جوابی ہوگی
آنکھ اٹھانے سے بھی پہلے ہی وہ ہوں گے غائب
کیا خبر تھی کہ انہیں اتنی شتابی ہوگی
ہر محبت کو سمجھتا ہے وہ ناول کا ورق
اس پری زاد کی تعلیم کتابی ہوگی
شیخ جی ہم تو جہنم کے پرندے ٹھہرے
آپ کے پاس تو فردوس کی چابی ہوگی
کر دیا موسیٰ کو جس چیز نے بے ہوش عدمؔ
بے نقابی نہیں وہ نیم حجابی ہوگی
غزل
آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہوگی
عبد الحمید عدم