آنکھوں سے کسی خواب کو باہر نہیں دیکھا
پھر عشق نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا
یہ شہر صداقت ہے قدم سوچ کے رکھنا
شانے پہ کسی کے بھی یہاں سر نہیں دیکھا
ہم عمر بسر کرتے رہے میرؔ کی مانند
کھڑکی کو کبھی کھول کے باہر نہیں دیکھا
وہ عشق کو کس طرح سمجھ پائے گا جس نے
صحرا سے گلے ملتے سمندر نہیں دیکھا
ہم اپنی غزل کو ہی سجاتے رہے راحتؔ
آئینہ کبھی ہم نے سنور کر نہیں دیکھا
غزل
آنکھوں سے کسی خواب کو باہر نہیں دیکھا
حمیرا راحتؔ