EN हिंदी
آنکھوں میں کسی یاد کا رس گھول رہی ہوں | شیح شیری
aankhon mein kisi yaad ka ras ghol rahi hun

غزل

آنکھوں میں کسی یاد کا رس گھول رہی ہوں

ریحانہ قمر

;

آنکھوں میں کسی یاد کا رس گھول رہی ہوں
الجھے ہوئے پلو سے گرہ کھول رہی ہوں

وہ آئے خریدے مجھے پنجرے میں بٹھا دے
میں باغ میں مینا کی طرح بول رہی ہوں

ہر بار ہوا ہے مرے نقصان کا سودا
کہنے کو ہمیشہ سے میں انمول رہی ہوں