آنکھوں میں بس رہا ہے ادا کے بغیر بھی
دل اس کو سن رہا ہے صدا کے بغیر بھی
کھلتے ہیں چند پھول بیاباں میں بے سبب
گرتے ہیں کچھ درخت ہوا کے بغیر بھی
میں ہوں وہ شاہ بخت کہ دربار حسن میں
چلتا ہے اپنا کام وفا کے بغیر بھی
منصف کو سب خبر ہے مگر بولتا نہیں
مجھ پر ہوا جو ظلم سزا کے بغیر بھی
بندوں نے جب سے کام سنبھالا ہے دہر کا
نازل ہے روز قہر خدا کے بغیر بھی
اردو غزل کے دم سے وہ تہذیب بچ گئی
مٹنے کا جس کے گل تھا فنا کے بغیر بھی
غزل
آنکھوں میں بس رہا ہے ادا کے بغیر بھی
حسن نعیم