آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو
سب اپنی اپنی راہ لیں ہم نے کہا نہ تھا
دروازے آج بند سمجھئے سلوک کے
یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ تھا
کوشش ہزار کرتی رہیں تیز آندھیاں
لیکن وہ ایک پتہ ابھی تک ہلا نہ تھا
سب ہی شکارگاہ میں تھے خیمہ زن مگر
کوئی شکار کرنے کو اب تک اٹھا نہ تھا
اچھا ہوا کہ گوشہ نشینی کی اختیار
آشفتہؔ اور اس کے سوا راستہ نہ تھا
غزل
آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
آشفتہ چنگیزی