EN हिंदी
آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا | شیح شیری
aankhon ke KHwab dil ki jawani bhi le gaya

غزل

آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا

فضا ابن فیضی

;

آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا

خم چم تمام اپنا بس اک اس کے دم سے تھا
وہ کیا گیا کہ آگ بھی پانی بھی لے گیا

ٹوٹا تعلقات کا آئینہ اس طرح
عکس نشاط لمحۂ فانی بھی لے گیا

کوچے میں ہجرتوں کے ہوں سب سے الگ تھلگ
بچھڑا وہ یوں کہ ربط مکانی بھی لے گیا

تھے سب اسی کے لمس سے جل تھل بنے ہوئے
دریا مڑا تو اپنی روانی بھی لے گیا

اب کیا کھلے گی منجمد الفاظ کی گرہ
وہ ہمت کشود معانی بھی لے گیا

سر جوشیٔ قلم کو فضاؔ چپ سی لگ گئی
وہ جاتے جاتے شعلہ بیانی بھی لے گیا