EN हिंदी
آنکھوں کے آئنوں میں توانائی آئے گی | شیح شیری
aankhon ke aainon mein tawanai aaegi

غزل

آنکھوں کے آئنوں میں توانائی آئے گی

خلیل رامپوری

;

آنکھوں کے آئنوں میں توانائی آئے گی
دیکھے گا سبز کھیت تو بینائی آئے گی

پائے گا خوشبوؤں سے زمینوں کے بھید بھی
اک روز تیرے کام شناسائی آئے گی

پیڑوں کی چھاؤں چھوڑ کسی آب جو پہ بیٹھ
تجھ میں نہیں تو عکس میں رعنائی آئے گی

دنیا کی سیر کر کے نکھر جائے گا خیال
تازہ ہوا لگے گی تو دانائی آئے گی

ہر نقش آب و خاک کا دل میں اتار لے
فن کار ہے تو طاقت گویائی آئے گی

شاعر کی طرح ڈول رہا ہے خلاؤں میں
لوگوں میں بیٹھ انجمن آرائی آئے گی

اندھوں کے اس نگر میں دیئے کی مثال بن
صحرا میں گل کھلے گا تو یکتائی آئے گی

شفاف پانیوں کی طرح زندگی گزار
سورج کی طرح تجھ میں توانائی آئے گی

گھر میں دیا جلا کہ لگے بولتا ہوا
دیوار و در پہ زینت و زیبائی آئے گی

سایہ بھی تیرا تجھ کو کہیں چھوڑ جائے گا
آئی بھی تیرے کام تو تنہائی آئے گی

گرمی بہت ہے آج کھلا رکھ مکان کو
اس کی گلی سے رات کو پروائی آئے گی

کافی ہے جو غزل کے لئے کہہ لیا خلیلؔ
آگے قدم رکھے گا تو گہرائی آئے گی