EN हिंदी
آنکھیں کھلیں کہ وا در زندان ہو گیا | شیح شیری
aankhen khulin ki wa dar-e-zindan ho gaya

غزل

آنکھیں کھلیں کہ وا در زندان ہو گیا

محسن چنگیزی

;

آنکھیں کھلیں کہ وا در زندان ہو گیا
میں روشنی کو دیکھ کے حیران ہو گیا

تجھ سے مشابہت نہیں رکھتا کوئی یہاں
اب تجھ کو بھولنا بھی تو آسان ہو گیا

اس نے کہا کہ پھول سے تتلی اڑائیے
اتنی سی بات پر میں پریشان ہو گیا

میں خود سے مل گیا تھا تری بازیافت میں
کیا مجھ پہ تیرے ہجر کا احسان ہو گیا

میرے تمام خواب مرے دل میں رہ گئے
میری تو ساری عمر کا نقصان ہو گیا