آنکھ میں کتنے طلسمات جہاں پاؤ گے
خون رنگیں ہے تو سو رنگ یہاں پاؤ گے
ہو فراغت تو ذرا جھاڑو خیالوں کے شجر
شاخساروں پہ بہت برگ خزاں پاؤ گے
یوں سنبھالے نہ پھرو دل میں شکستہ شیشے
کرچیاں بکھریں تو رگ رگ میں رواں پاؤ گے
موجۂ ریگ درخشاں کے تعاقب میں رہو
ان سرابوں ہیں میں پانی کا نشاں پاؤ گے
یہ خرابہ ہی سہی اس سے نہ باہر نکلو
چھوڑ کر دل کو کہیں پھر نہ اماں پاؤ گے
رشتۂ تار ظر سے ہے اجالوں کا بھرم
آنکھ جھپکی تو کوئی اور سماں پاؤ گے
سانس الجھی ہوئی آتی ہے تو ہے کس کی خطا
آگ اندر ہے تو اندر ہی دھواں پاؤ گے
کس قدر شور ہے لوگوں سے بھری گلیوں میں
غور سے دیکھو بہت خالی مکاں پاؤ گے
دشت دل ہی سے کوئی چشمہ نکالو شاہیںؔ
خشک سالی میں یہاں پانی کہاں پاؤ گے
غزل
آنکھ میں کتنے طلسمات جہاں پاؤ گے
جاوید شاہین