EN हिंदी
آنکھ کے ساحل پر آتے ہی اشک ہمارے ڈوب گئے | شیح شیری
aankh ke sahil par aate hi ashk hamare Dub gae

غزل

آنکھ کے ساحل پر آتے ہی اشک ہمارے ڈوب گئے

سید ضیا علوی

;

آنکھ کے ساحل پر آتے ہی اشک ہمارے ڈوب گئے
غم کا ساون اتنا برسا سارے سہارے ڈوب گئے

اس کو کھیل کہیں قسمت کا یا ہم دریا کی سازش
طوفانوں سے بچ نکلے تو آ کے کنارے ڈوب گئے

جذبۂ محبت یہ تو بتا کب آئے گا آنے والا
رات سمٹتی جاتی ہے اور چاند ستارے ڈوب گئے

نیل گگن پر اڑتے پنچھی لوٹ کے آ جا گھر اپنے
رات کا آنچل لہرایا ہے دن کے نظارے ڈوب گئے

دریا کے وہ پار ہوئے ہیں چاہت سے جو دور رہے
پیار کی کشتی کھینے والے سب بے چارے ڈوب گئے

ان پر کچھ پیغام لکھے تھے جو تجھ سے وابستہ تھے
اڑتے اڑتے دور افق میں جو غبارے ڈوب گئے

اس نے تو ہم کو ہی ضیاؔ دریا میں ڈبونا چاہا تھا
لیکن تھے جو ساتھ ہمارے وہ بھی سارے ڈوب گئے