آنکھ ہی آنکھ تھی منظر بھی نہیں تھا کوئی
تو نہیں تیرے برابر بھی نہیں تھا کوئی
میرے باہر تو کسی موت کا سناٹا تھا
ایسی تنہائی کہ اندر بھی نہیں تھا کوئی
کیا تماشا ہے کہ پھر جسم مرا بھیگ گیا
راستے میں تو سمندر بھی نہیں تھا کوئی
غزل
آنکھ ہی آنکھ تھی منظر بھی نہیں تھا کوئی
سرفراز خالد