آن پہنچے ہیں یہ کہاں ہم لوگ
اب زمیں ہیں نہ آسماں ہم لوگ
کل یقیں بانٹتے تھے اوروں میں
اب ہیں خود سے بھی بد گماں ہم لوگ
کن ہواؤں کی زد میں آئے ہیں
ہو گئے ہیں دھواں دھواں ہم لوگ
چپ تو پہلے بھی جھیلتے تھے مگر
اس قدر کب تھے بے زباں ہم لوگ
کب میسر کوئی کنارہ ہو
کب سمیٹیں گے بادباں ہم لوگ
بن گئے راکھ اب نجانے کیوں
تھے کبھی شعلۂ تپاں ہم لوگ
ہم کو جانا تھا کس طرف رزمیؔ!
اور کس سمت ہیں رواں ہم لوگ
غزل
آن پہنچے ہیں یہ کہاں ہم لوگ
خادم رزمی