آخر یہ حسن چھپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤ گے تمہیں نہ کرو ضد حجاب میں
پامال شوخیوں میں کرو تم زمین کو
ڈالوں فلک پے زلزلہ میں اضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گرہ نہ وا ہوئی درد شب وصال
گزری تمام بست و کشاد نقاب میں
جاں میں نے نامہ بر کے قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں
ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں
واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیب محفل مے و چنگ و رباب میں
ساقی ادھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست ہیں
کچھ مستیٔ نگہ بھی ملا دے شراب میں
داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مد فضول ہوں میں تمہارے حساب میں
کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھیے
دشمن ہے چرخ پیر زمان شباب میں
پیغامبر اشارۂ ابرو سے مر گیا
پھر جی اٹھے گا لب بھی ہلا دو جواب میں
غزل
آخر یہ حسن چھپ نہ سکے گا نقاب میں
اسماعیلؔ میرٹھی