آج ہے دہر میں کیا اک نئی آفت کے سوا
بغض و نفرت کے سوا رنج و مصیبت کے سوا
اس طرح چھایا ہوا ہے نگہ و دل پہ طلسم
جیسے ہر چیز حقیقت ہو حقیقت کے سوا
اپنے ہر جبر کو وہ مہر و وفا کہتے ہیں
ہم بھی کچھ نام نہ دیں اس کو محبت کے سوا
ہستیٔ عشق کو اب تک نہ کوئی جان سکا
ورنہ ہے دہر میں کیا اور محبت کے سوا
ہر نفس اک نئے طوفان کی یورش ہے حیاتؔ
کس کو الزام دیں اس دور میں قسمت کے سوا

غزل
آج ہے دہر میں کیا اک نئی آفت کے سوا
مسعودہ حیات