آئنہ تجھ پہ ہی صیقل نہیں ارزانی کا
مرحلہ صرف بچا ہے مری حیرانی کا
تجھ سے مل آئے بہت پیچ بہت تاب کے بعد
قرض اترا ہی نہیں دل کی پشیمانی کا
چاہے جس باب سے تو مجھ کو رہائی دے دے
مجھ پہ مشکل نہیں رستہ تری آسانی کا
بجھ کے رہنا کبھی بے ساختہ جلنا کیا ہے
خوب انداز ہے جاناں تری مہمانی کا
یہ کتابوں یہ رسالوں کا سفر کچھ بھی نہیں
استعارہ ہی بہت ہے تری پیشانی کا
لیمپ بجھتے ہی سرہانے کا پری آتی ہے
رات بھر پھر وہی موسم ترے زندانی کا

غزل
آئنہ تجھ پہ ہی صیقل نہیں ارزانی کا
خمار قریشی