EN हिंदी
آئنے کے روبرو اک آئنہ رکھتا ہوں میں | شیح شیری
aaine ke ru-ba-ru ek aaina rakhta hun main

غزل

آئنے کے روبرو اک آئنہ رکھتا ہوں میں

توصیف تابش

;

آئنے کے روبرو اک آئنہ رکھتا ہوں میں
رات دن حیرت میں خود کو مبتلا رکھتا ہوں میں

دوستوں والی بھی اک خوبی ہے ان میں اس لئے
دشمنوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھتا ہوں میں

روز و شب میں گھومتا ہوں وقت کی پر کار پر
اپنے چاروں سمت کوئی دائرہ رکھتا ہوں میں

کھٹکھٹانے کی بھی زحمت کوئی آخر کیوں کرے
اس لئے بھی گھر کا دروازہ کھلا رکھتا ہوں میں

آج کل خود سے بھی ہے رنجش کا کوئی سلسلہ
آج کل خود سے بھی تھوڑا فاصلہ رکھتا ہوں میں

چند یادیں ایک چہرہ ایک خواہش ایک خواب
اپنے دل میں اور کیا ان کے سوا رکھتا ہوں میں

چند تصویریں کتابیں خوشبوئیں اور ایک پھول
اپنی الماری میں تابشؔ اور کیا رکھتا ہوں میں