آئینہ سا اندھیری رات کا میں
خواب ہوں خواہش نشاط کا میں
خوف اک ٹوٹتی قنات کا میں
یا تذبذب حصار ذات کا میں
چال سے کس کی پٹ گیا ہوں میں
جانے مہرہ ہوں کس بساط کا میں
میں ہوں اپنے ہنر پہ وارفتہ
یا ہوں قاتل تری صفات کا میں
ڈوبتی آنکھ میں تصور سا
دھوپ میں رنگ بے حیات کا میں
بے ثباتی کی دھند میں لپٹا
راستہ ہوں ترے ثبات کا میں
زندگی کربلا کا اک لمحہ
اور پیاسا لب فرات کا میں

غزل
آئینہ سا اندھیری رات کا میں
نعمان امام