آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
ہر بار مسرت کا اعادہ نہیں ہوتا
یہ کیسی صداقت ہے کہ پردوں میں چھپی ہے
اخلاص کا تو کوئی لبادہ نہیں ہوتا
جنگل ہو کہ صحرا کہیں رکنا ہی پڑے گا
اب مجھ سے سفر اور زیادہ نہیں ہوتا
اک آنچ کی پہلے بھی کسر رہتی رہی ہے
کیوں ساتواں در مجھ پہ کشادہ نہیں ہوتا
سچ بات مرے منہ سے نکل جاتی ہے اکثر
ہر چند مرا ایسا ارادہ نہیں ہوتا
اے حرف ثنا سحر مسلم ترا تجھ سے
بڑھ کر تو کوئی ساغر بادہ نہیں ہوتا
افسانۂ افسون جوانی کے علاوہ
کس بات کا دنیا میں اعادہ نہیں ہوتا
سورج کی رفاقت میں چمک اٹھتا ہے چہرہ
شبنمؔ کی طرح سے کوئی سادہ نہیں ہوتا
غزل
آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
شبنم شکیل