آئیں وہ لاکھ دیکھنے والوں کے سامنے
اٹھتی ہے آنکھ مہر جمالوں کے سامنے
ممکن نہیں جواب تری چشم مست کا
یہ فیصلہ ہوا ہے غزالوں کے سامنے
تنہا نہ ایک حضرت موسیٰ کو غش ہوا
ٹھہرا ہے کون برق جمالوں کے سامنے
ہو جائے حسن کو نہ کسی کی نظر کہیں
اچھے نہیں ہیں دیکھنے والوں کے سامنے
دنیا میں نیک و بد تو کوئی چیز ہی نہیں
ہونا ہے سب کو اپنے خیالوں کے سامنے

غزل
آئیں وہ لاکھ دیکھنے والوں کے سامنے
ساحر سیالکوٹی