آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں
میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ وہ دنیا تو نہیں
روح کو درد ملا درد کو آنکھیں نہ ملیں
تجھ کو محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں
رنگ سی شکل ملی ہے تجھے خوشبو سا مزاج
لالہ و گل کہیں تیرا ہی سراپا تو نہیں
چہرہ دیکھوں تو خد و خال بدل جاتے ہی
چھپ کے آئینے کے پیچھے کوئی بیٹھا تو نہیں
پھینک کر مار زمیں پر نہ زمانے مجھ کو
ٹوٹ ہی جاؤں گا جیسے میں کھلونا تو نہیں
زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا تو نہیں
میری آنکھوں میں ترے نقش قدم کیسے ہیں
اس سرائے میں مسافر کوئی ٹھہرا تو نہیں
سوچتے سوچتے دل ڈوبنے لگتا ہے مرا
ذہن کی تہ میں مظفرؔ کوئی دریا تو نہیں
غزل
آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں
مظفر وارثی