آ رہی تھی بند کلیوں کے چٹکنے کی صدا
میں سراپا گوش ہو کر رات بھر سنتا رہا
بہہ گیا ظلمات کے سیلاب میں ایوان سنگ
دھوپ جب نکلی تمازت سے سمندر جل اٹھا
جب رگ و پے میں سرایت کر رہا تھا زہر حبس
روزن دیوار سے مجھ پر ہنسی ٹھنڈی ہوا
سبز کھیتوں سے کوئی صحرا میں لے جائے مجھے
میں ہرے سورج کی تابانی سے اندھا ہو گیا
بن گئی زنجیر خوشبو دار مٹی کی کشش
میں زمیں سے جب خلاؤں کی طرف جانے لگا

غزل
آ رہی تھی بند کلیوں کے چٹکنے کی صدا
صدیق افغانی