EN हिंदी
آ کے بزم ہستی میں کیا بتائیں کیا پایا | شیح شیری
aa ke bazm-e-hasti mein kya bataen kya paya

غزل

آ کے بزم ہستی میں کیا بتائیں کیا پایا

ناطق گلاوٹھی

;

آ کے بزم ہستی میں کیا بتائیں کیا پایا
ہم کو تھا ہی کیا لینا بت ملے خدا پایا

ہے مرض تو جو کچھ ہے تھی دوا تو جیسی تھی
چارہ ساز کو ہم نے ہاں گھٹا ہوا پایا

دوسروں کو کیا کہئے دوسری ہے دنیا ہی
ایک ایک اپنے کو ہم نے دوسرا پایا

کم سمجھ میں آتے ہیں اب تو اس کے گل بوٹے
ہم نے نقش ہستی کو کچھ مٹا مٹا پایا

بیٹھ کر تو ناطقؔ سے بات کی نہیں ہم نے
راہ چلتے دیکھا تھا کچھ چلا ہوا پایا