EN हिंदी
زراب المال شیاری | شیح شیری

زراب المال

17 شیر

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی




یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

مظفر رزمی




نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
وہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

نادر لکھنوی




شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

نواب محمد یار خاں امیر




قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

قائم چاندپوری




باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ثاقب لکھنوی




یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

شاد عظیم آبادی