سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ
تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
احمد محفوظ
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
علیم مسرور
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
عارف شفیق
ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے
بشیر بدر
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
جمال احسانی
دوستو تم سے گزارش ہے یہاں مت آؤ
اس بڑے شہر میں تنہائی بھی مر جاتی ہے
جاوید ناصر
تم بھی اس شہر میں بن جاؤ گے پتھر جیسے
ہنسنے والا یہاں کوئی ہے نہ رونے والا
کیلاش ماہر