EN हिंदी
رااز شیاری | شیح شیری

رااز

14 شیر

میں محبت نہ چھپاؤں تو عداوت نہ چھپا
نہ یہی راز میں اب ہے نہ وہی راز میں ہے

کلیم عاجز




کچھ کہنے تک سوچ لے اے بد گو انسان
سنتے ہیں دیواروں کے بھی ہوتے ہیں کان

مخمور سعیدی




غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

مومن خاں مومن




دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر
راز کو مشتہر کریں کیوں کر

مبارک عظیم آبادی




کوئی کس طرح راز الفت چھپائے
نگاہیں ملیں اور قدم ڈگمگائے

نخشب جارچوی




ان سے سب حال دغاباز کہے دیتے ہیں
میرے ہم راز مرا راز کہے دیتے ہیں

نوح ناروی




بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا
مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک

قتیل شفائی