EN हिंदी
قاسد شیاری | شیح شیری

قاسد

28 شیر

نامہ بر ناامید آتا ہے
ہائے کیا سست پاؤں پڑتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر




خط دیکھ کر مرا مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز

ماتم فضل محمد




کہنا قاصد کہ اس کے جینے کا
وعدۂ وصل پر مدار ہے آج

مردان علی خاں رانا




آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

میر محمدی بیدار




کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

مومن خاں مومن




زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے

مضطر خیرآبادی




مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے

نظام رامپوری