EN हिंदी
نیا سال شیاری | شیح شیری

نیا سال

21 شیر

یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

امیر قزلباش




سال نو آتا ہے تو محفوظ کر لیتا ہوں میں
کچھ پرانے سے کلینڈر ذہن کی دیوار پر

آزاد گلاٹی




پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی

عزیز نبیل




اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی

حفیظ میرٹھی




اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو

ابن انشا




منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے

افتخار عارف




ایک لمحہ لوٹ کر آیا نہیں
یہ برس بھی رائیگاں رخصت ہوا

انعام ندیمؔ