EN हिंदी
اڈا شیاری | شیح شیری

اڈا

25 شیر

نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف
ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

آرزو لکھنوی




پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی




اس ادا سے مجھے سلام کیا
ایک ہی آن میں غلام کیا

آصف الدولہ




ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی
دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو

بیخود دہلوی




بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد
جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے

بیخود دہلوی




وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا
جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

بیخود دہلوی




ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے

داغؔ دہلوی