مجھے بس اتنی شکایت ہے مرنے والوں سے
وہ بے نیاز ہیں کیوں یاد کرنے والوں سے
شہزاد احمد
مجھے بس اتنی شکایت ہے مرنے والوں سے
وہ بے نیاز ہیں کیوں یاد کرنے والوں سے
شہزاد احمد
مسافر ہو تو سن لو راہ میں صحرا بھی آتا ہے
نکل آئے ہو گھر سے کیا تمہیں چلنا بھی آتا ہے
شہزاد احمد
نہ میں نے دست شناسی کا پھر کیا دعویٰ
نہ اس نے ہاتھ مجھے چومنے دیا پھر سے
شہزاد احمد
نہ میں نے دست شناسی کا پھر کیا دعویٰ
نہ اس نے ہاتھ مجھے چومنے دیا پھر سے
شہزاد احمد
نہ ملے وہ تو تلاش اس کی بھی رہتی ہے مجھے
ہاتھ آنے پہ جسے چھوڑ دیا جاتا ہے
شہزاد احمد
نہ سہی جسم مگر خاک تو اڑتی پھرتی
کاش جلتے نہ کبھی بال و پر پروانہ
شہزاد احمد