EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

حسن بازار کی زینت ہے مگر ہے تو سہی
گھر سے نکلا ہوں تو اس چوک سے بھی ہو آؤں

شہزاد احمد




حضور حسن یہ دل کاسۂ گدائی ہے
ہوں وہ فقیر جسے بھیک بھی نہ دے کوئی

شہزاد احمد




حضور حسن یہ دل کاسۂ گدائی ہے
ہوں وہ فقیر جسے بھیک بھی نہ دے کوئی

شہزاد احمد




اک آگ پھر بھڑک اٹھی ہے دیدہ و دل میں
کچھ اشک پھر سر مژگاں دکھائی دیتے ہیں

شہزاد احمد




اس آس پہ سیلاب کے سینے پہ رواں ہوں
شاید کبھی دریا کا کنارا نظر آئے

شہزاد احمد




اس آس پہ سیلاب کے سینے پہ رواں ہوں
شاید کبھی دریا کا کنارا نظر آئے

شہزاد احمد




اس قدر تیز نہ چل سانس اکھڑ جائے گا
طے نہ کر راہ طلب ایک ہی رفتار سے تو

شہزاد احمد