آتا ہے خوف آنکھ جھپکتے ہوئے مجھے
کوئی فلک کے خیمے کی رسی نہ کاٹ دے
شہزاد احمد
آزاد تھا مزاج تو کیوں گھر بنا لیا
اب عمر بھر یہی در و دیوار دیکھیے
شہزاد احمد
اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو
شہزاد احمد
اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو
شہزاد احمد
اب بھی وہی دن رات ہیں لیکن فرق یہ ہے
پہلے بولا کرتے تھے اب سنتے ہیں
شہزاد احمد
اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا مگر تنہا نہ تھا
شہزاد احمد
اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا مگر تنہا نہ تھا
شہزاد احمد