EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

میر محمدی بیدار




آپ کو آپ میں نہیں پاتا
جی میں یاں تک مرے سمائے ہو

میر محمدی بیدار




عبث مل مل کے دھوتا ہے تو اپنے دست نازک کو
نہیں جانے کی سرخی ہاتھ سے خون شہیداں کی

میر محمدی بیدار




اگر چلی ہے تو چل یوں کہ پات بھی نہ ہلے
خلل نہ لائے صبا تو فراغ میں گل کے

میر محمدی بیدار




عجب کی ساحری اس من ہرن کی چشم فتاں نے
دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی

میر محمدی بیدار




اپنے اوپر تو رحم کر ظالم
دیکھ مت بار بار آئینہ

میر محمدی بیدار




عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینہ سے
کہ جوں شراب نمایاں ہو آبگینہ سے

میر محمدی بیدار