EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

محبت کا رستہ عجب گرم تھا
قدم جب دھرا خاک پر جل گیا

میر حسن




مو سے سپید نے نمک اس میں ملا دیا
کیفیت اب رہی نہیں جام شراب میں

میر حسن




نہ غرض مجھ کو ہے کافر سے نہ دیں دار سے کام
روز و شب ہے مجھے اس کاکل خم دار سے کام

میر حسن




نہ لیٹ اس طرح منہ پر زلف کو بکھرا کے اے ظالم
ذرا اٹھ بیٹھ تو اس دم کہ دونوں وقت ملتے ہیں

میر حسن




ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ
ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی

میر حسن




ناقہ سے دور رہ گیا آخر نہ قیس تو
کہتے نہ تھے کہ پاؤں سے مت کھینچ خار کو

میر حسن




ناصحوں کے ہاتھ سے چھوڑیں گے رہنا شہر کا
دیکھتے ہیں اور دن دو چار اب بنتی نہیں

میر حسن