آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
امید فاضلی
اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا
امید فاضلی
چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست
فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں
امید فاضلی
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
امید فاضلی
گھر تو ایسا کہاں کا تھا لیکن
در بدر ہیں تو یاد آتا ہے
امید فاضلی
جانے کب طوفان بنے اور رستا رستا بچھ جائے
بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
امید فاضلی
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں
امید فاضلی
جب سے امیدؔ گیا ہے کوئی!!
لمحے صدیوں کی علامت ٹھہرے
امید فاضلی
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
امید فاضلی