جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا
پرچھائیں زندہ رہ گئی انسان مر گیا
بربادیاں تو میرا مقدر ہی تھیں مگر
چہروں سے دوستوں کے ملمع اتر گیا
اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا
اس شہر میں فراش طلب ہے ہر ایک راہ
وہ خوش نصیب تھا جو سلیقے سے مر گیا
کیا کیا نہ اس کو زعم مسیحائی تھا امیدؔ
ہم نے دکھائے زخم تو چہرہ اتر گیا
غزل
جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا
امید فاضلی